حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی۔۔۔
عامر عباسی۔۔۔۔
مدنی زندگی کا سماج پوری دنیا کے انسانوں خاص طور سے مسلمانوں کے لیے تنہا اور آخری رول ماڈل ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست رحمت سے تشکیل یافتہ یہ اعلیٰ ترین سماج نہایت ہی پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا۔آج جب کہ دنیا عالم گیریت کی طرف بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور خاص طور سے یورپ کی آزاد خیال تہذیب و ثقافت کے سایے پوری دنیا پر دراز ہوتے جا رہے ہیںجس کے نتیجے میں آزاد خیالی کے نام پر ایسی ایسی انسانیت سوز و حیا دوزچیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ان کا تصور ہی ایک شریف انسان کے لیے کافی تکلیف دہ ہے۔ایسے میں مدنی سماج کے مطالعے کو عام کرنے کی ضرورت ہے، کیوںکہ نہایت ہی اعلی انسانی اقدار پر مشتمل یہ سماج رب العالمین کے رسول رحمۃ للعلمین کا تشکیل کردہ ہے۔چنانچہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور اخلاقی ناقدری کے پرانے مرض کاجڑسے خاتمہ کرنے کے لیے نہایت ہی کامیاب ترین سماج ہے اور عالم گیریت کے لیے پوری طرح سے مناسب بھی۔ یہاں اسی مدنی سماج خاص طور سے سرکار دوعالم کی اعلیٰ ترین مدنی سماجی سیرت کی ہلکی سی جھلک پیش کی جا تی ہے۔
مکہ میں۵۳؍سالہ زندگی گزارنے کے بعد رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔مدینہ پہنچنے پر آپ کا نہایت ہی پرتپاک استقبال ہوا، وہاں کے باشندوں نے آپ کو سرآنکھوںپربٹھایااور اس کے ساتھ ہر ایک خاندان کے سربراہ نے آپ سے اپنے یہاںاترنے اور قیام کرنے کی درخواست بھی کی۔ایسی نازک صورت حال میں آپ نے ازخود فیصلہ نہیں کیا،بلکہ اپنا فیصلہ اپنی اونٹنی پر چھوڑدیا کہ جہاں وہ بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہوگا۔اس فیصلے سے نہ کسی کا دل دکھا اور نہ ہی کسی کو یہ احساس ہوا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود میری دعوت کومُسترد کردیا۔بہر حال یہ شرف حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو حاصل ہواکہ انہی کے دروازے پر آپ کی اونٹنی بیٹھی اورآپ نے وہیں قیام کرنے کافیصلہ کیا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کا یہ پہلا مسئلہ تھا اورآپ نے اس اول مسئلے ہی کو بحکم الٰہی ایسی حکمت سے حل فرمایا کہ لوگوں کے دل ٹوٹنے سے بچ گئے جو اس بات کا اشاریہ تھا کہ ہم دلوں کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے آئے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام)
مدنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا اہم کام مسجد نبوی کی تعمیر ہے۔مسجد نبوی جس جگہ بنی ہوئی ہے ،یہ جگہ در اصل مدینہ کے دو یتیموں کی تھی۔جب ان دو یتیموں کو مسجد کی تعمیر کی اطلاع ہوئی تو ان دونوں نے یہ جگہ ہدیہ کے طور پر دینا چاہی،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی خواہش کے با وجود اُسے ہدیۃََلینا پسند نہیں کیا،بلکہ اس کی پوری قیمت عطا فرمائی۔ظاہر ہے ان یتیموں کی اگر یہ زمین ہدیہ ہوجاتی تو یہ بلا قیمت ہوتی اور ان کے لیے کسی نہ کسی طرح سے یہ ایک خسارہ ہوتا،کیونکہ ایک یتیم کے لیے جائیداد بہت بڑامالی سہارا ہوتی ہے۔چنانچہ رسول رحمت و رافت نے ان کی زمین مسجد نبوی کے لیے منظور فرماکر اُن کا دل رکھا اور قیمت دے کر ان کو مالی سہارافراہم کیا اورکسی طرح کا خسارہ نہ ہونے دیا۔یتیموں کی دلجوئی اور ان کے ساتھ رحمت ورافت کی یہ ایک بہت بڑی مثال ہے۔ (زاد المعاد)
مدنی زندگی میں رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اولاً قبیلہ اوس و خزرج اور پھر انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات بھی قائم کیا۔یہ رشتہ مواخات آپ کی بہت بڑی سماجی خدمت ہے کہ اس سے قبیلہ اوس و خزرج ،جو برسوں سے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بر سر پیکار رہتے تھے، ایک دوسرے کے ہم درد و غم خوار بن گئے۔دوسرا یہ کہ اسی رشتہ مواخات کی وجہ سے اوس و خزرج پر مشتمل انصار نے مہاجرین کی ،جو مکہ میں اپنا سارا ساز و سامان اور گھر بار چھوڑ آئے تھے اورمدینہ میں بالکل تہی دست تھے،بھرپور مدد کی اور ان کے ساتھ بھائیوں سا سلوک کیا جس سے ان تہی دست مہاجرین کو مدنی معاشرے میں ایک باحیثیت مقام و مرتبہ مل گیا۔اس معاہدے سے جہاں یہ فوری فائدہ حاصل ہو اکہ اس سے مسلمانوں کے مابین محبت و بھائی چارگی اور ہمدردی و غم خواری کی شاندار فضا قائم ہوگئی وہیں تہی دستوں،فاقہ کشوں، غریبوں، مظلوموں،مسافروں اور بے گھروں کو مدد بہم پہنچانے کے لیے مسلمانوں کی ذہنی و عملی تربیت بھی ہو گئی اور ایسی تربیت ہوئی کہ صحابہ کرام نے اپنی آخری حیات تک اس درس کو کبھی فراموش نہیں کیا۔تاریخ و سیر کی کتابیں حیات صحابہ کی اس عظیم حقیقت سے بھری پڑی ہیں اور اس حوالے سے ’’عہد فاروقی‘‘ تو ایک نمایاںمثال ہی ہے۔ (ابن سعد)
اوس و خزرج اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کے یہودی قبائل خاص طور سے بنو نضیر،بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے درمیان ’میثاق مدینہ‘ کے نام سے تاریخ انسانی کا سب سے پہلا مدون و منظم بین قبائلی معاہدہ بھی کیا،جس سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت کے ضمن میں مدینہ کے سماج کو بہتر سے بہتر طور پر تشکیل دینے کا بھر پور موقع ملا اور کسی طرح کی رخنہ اندازی کا خدشہ بھی نہیں رہا۔ (سیرت ابن ہشام)
بنو قینقاع کے ایک فرد نے میثاق مدینہ کے ساتھ بد عہدی کرتے ہوئے ایک مسلم خاتون کی برسر راہ بے عزتی و بے حرمتی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی معاشرے کو اس طرح کی غیر سماجی وغیر اخلاقی حرکتوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر جرم مذکور اور میثاق مدینہ کی بدعہدی کی پاداش میں اس پورے قبیلے ہی کومدینے سے باہر نکال دیا، تاکہ مدنی معاشرہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مشتمل ایک مکمل انسانی سماج بن سکے اور اس میں کسی طرح کی حیوانیت در نہ آنے پائے۔ (سیرت ابن ہشام)
سنہ ۲ ہجری میںواقع غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، جس میں بڑے بڑے کفار مکہ مقتول ہوئے اور بہت سے قیدی بھی بنے۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان قیدیوں کے قیام و طعام کا بھر پور انتظام فرمایا، دودو، چار چار قیدی حسب حیثیت صحابہ کرام میں تقسیم کر دیے اور ارشاد فرمایاکہ ان کے آرام و آسائش کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ صحابہ کرام نے اپنے آقا کے ارشاد گرامی کو حرز جاں بنایااور قیدیوں کا اس قدر خیال رکھا کہ خود بھوکے اورپیا سے رہے مگر قیدیوں کو کھلایا اور پلایابھی۔ان قیدیوں میں ابو عزیز،جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی تھے،بیان کرتے ہیں کہ مجھے جن انصاریوں نے اپنے گھر میں رکھا تھا ،جب صبح و شام کا کھانا کھلاتے توروٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور اٹھا لیتے، مجھے شرم آتی اور روٹی مَیں ان کے ہاتھ میں دیدیتا،لیکن وہ اُسے ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کردیتے۔یہ اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کا حسن سلوک اور وہ بھی جنگی قیدیوں کے ساتھ۔دنیا کاکوئی متمدن معاشرہ اس قسم کے حسن سلوک کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ (تاریخ طبری)
تحویل قبلہ کے بعد جب مسجدنبوی کارخ کعبہ کی طرف ہوگیاتوقبلہ اول کی طرف کی دیوار اور اس سے متصل جو جگہ ایک چبوترے کے طورپر تھی ،اصحاب صفہ کے لیے چھوڑ دی گئی۔ جن کے کھانے پینے کا انتظام حضوراپنے گھر والوں کی طرح کرتے تھے۔سرکاردوعالم کو اپنی اسی سخاوت اورغریبوں کی مددکرنے کے باعث وقتاً فوقتاً بڑی دشواری ہوجاتی تھی اور فقروفاقہ تک کی نوبت آجاتی تھی،جس کو آپ برداشت کرتے تھے ۔(رہبرانسانیت)
قبیلۂ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی صاحبزادی’ جویریہ‘ باندی کی حیثیت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں، لیکن آپ نے ان کو آزاد فرمادیا،مزید احسان فرماتے ہوئے ان کو اپنے نکاح میں بھی لے لیا۔یہ واقعہ ۶ہجری کا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دلداری کا اثر یہ ہوا کہ بنومصطلق کے تمام لوگ اسلام لے آئے،اِدھر صحابہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ہمدردانہ رویہ دیکھ کر اپنے قبضے میں آئے ہوئے تمام غلام و باندی آزاد کردیے۔خدمت انسانی کا یہ عظیم ترین واقعہ ہے کہ ایک باندی کو آزادی کے ساتھ ساتھ دنیا کی افضل ترین خاتون ہونے کا شرف ملااور یوںہی سیکڑوں لوگوں کو غلامی سے مفت آزادی ملی۔ (ابن ہشام)
یہ تو تھیں صاف ستھرا،بااخلاق اور حیا دار مدنی سماج کو پیش کرنے والی چند تاریخی مثالیں ۔اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور اُن پر تدریجاََ نازل ہونے والی آیات قرآنی میں جہاں حقوق اللہ یعنی نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کی ادائیگی کا حکم آیاہے، تو اس کے ساتھ بندوں کے حقوق و فرائض کی بجاآوری کا بھی حکم دیا گیا ہے اور فقہائے اسلام کی تشریح کے مطابق حقوق العبادکی اہمیت حقوق اللہ سے زیادہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کا دوسرا نام ہی سماجی خدمت ہے،کیوںکہ سماجی خدمت کا مطلب ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کی جائے،انھیںان کے حقوق دیے جائیں،کسی کی حق تلفی نہ کی جائے،کسی یتیم کا مال نہ کھایا جائے،کسی بیوہ پر عرصہ ٔحیات تنگ نہ کیا جائے، بیماروں کی عیادت کی جائے،بڑوں اور بوڑھوں کی تعظیم کی جائے، چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیا جائے،ظالم کو ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کو انصاف دلایا جائے۔یہ تمام چیزیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتا ئے ہوئے حقوق العباد میں شامل ہیں
مکہ میں۵۳؍سالہ زندگی گزارنے کے بعد رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔مدینہ پہنچنے پر آپ کا نہایت ہی پرتپاک استقبال ہوا، وہاں کے باشندوں نے آپ کو سرآنکھوںپربٹھایااور اس کے ساتھ ہر ایک خاندان کے سربراہ نے آپ سے اپنے یہاںاترنے اور قیام کرنے کی درخواست بھی کی۔ایسی نازک صورت حال میں آپ نے ازخود فیصلہ نہیں کیا،بلکہ اپنا فیصلہ اپنی اونٹنی پر چھوڑدیا کہ جہاں وہ بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہوگا۔اس فیصلے سے نہ کسی کا دل دکھا اور نہ ہی کسی کو یہ احساس ہوا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود میری دعوت کومُسترد کردیا۔بہر حال یہ شرف حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو حاصل ہواکہ انہی کے دروازے پر آپ کی اونٹنی بیٹھی اورآپ نے وہیں قیام کرنے کافیصلہ کیا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کا یہ پہلا مسئلہ تھا اورآپ نے اس اول مسئلے ہی کو بحکم الٰہی ایسی حکمت سے حل فرمایا کہ لوگوں کے دل ٹوٹنے سے بچ گئے جو اس بات کا اشاریہ تھا کہ ہم دلوں کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے آئے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام)
مدنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا اہم کام مسجد نبوی کی تعمیر ہے۔مسجد نبوی جس جگہ بنی ہوئی ہے ،یہ جگہ در اصل مدینہ کے دو یتیموں کی تھی۔جب ان دو یتیموں کو مسجد کی تعمیر کی اطلاع ہوئی تو ان دونوں نے یہ جگہ ہدیہ کے طور پر دینا چاہی،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی خواہش کے با وجود اُسے ہدیۃََلینا پسند نہیں کیا،بلکہ اس کی پوری قیمت عطا فرمائی۔ظاہر ہے ان یتیموں کی اگر یہ زمین ہدیہ ہوجاتی تو یہ بلا قیمت ہوتی اور ان کے لیے کسی نہ کسی طرح سے یہ ایک خسارہ ہوتا،کیونکہ ایک یتیم کے لیے جائیداد بہت بڑامالی سہارا ہوتی ہے۔چنانچہ رسول رحمت و رافت نے ان کی زمین مسجد نبوی کے لیے منظور فرماکر اُن کا دل رکھا اور قیمت دے کر ان کو مالی سہارافراہم کیا اورکسی طرح کا خسارہ نہ ہونے دیا۔یتیموں کی دلجوئی اور ان کے ساتھ رحمت ورافت کی یہ ایک بہت بڑی مثال ہے۔ (زاد المعاد)
مدنی زندگی میں رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اولاً قبیلہ اوس و خزرج اور پھر انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات بھی قائم کیا۔یہ رشتہ مواخات آپ کی بہت بڑی سماجی خدمت ہے کہ اس سے قبیلہ اوس و خزرج ،جو برسوں سے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بر سر پیکار رہتے تھے، ایک دوسرے کے ہم درد و غم خوار بن گئے۔دوسرا یہ کہ اسی رشتہ مواخات کی وجہ سے اوس و خزرج پر مشتمل انصار نے مہاجرین کی ،جو مکہ میں اپنا سارا ساز و سامان اور گھر بار چھوڑ آئے تھے اورمدینہ میں بالکل تہی دست تھے،بھرپور مدد کی اور ان کے ساتھ بھائیوں سا سلوک کیا جس سے ان تہی دست مہاجرین کو مدنی معاشرے میں ایک باحیثیت مقام و مرتبہ مل گیا۔اس معاہدے سے جہاں یہ فوری فائدہ حاصل ہو اکہ اس سے مسلمانوں کے مابین محبت و بھائی چارگی اور ہمدردی و غم خواری کی شاندار فضا قائم ہوگئی وہیں تہی دستوں،فاقہ کشوں، غریبوں، مظلوموں،مسافروں اور بے گھروں کو مدد بہم پہنچانے کے لیے مسلمانوں کی ذہنی و عملی تربیت بھی ہو گئی اور ایسی تربیت ہوئی کہ صحابہ کرام نے اپنی آخری حیات تک اس درس کو کبھی فراموش نہیں کیا۔تاریخ و سیر کی کتابیں حیات صحابہ کی اس عظیم حقیقت سے بھری پڑی ہیں اور اس حوالے سے ’’عہد فاروقی‘‘ تو ایک نمایاںمثال ہی ہے۔ (ابن سعد)
اوس و خزرج اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کے یہودی قبائل خاص طور سے بنو نضیر،بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے درمیان ’میثاق مدینہ‘ کے نام سے تاریخ انسانی کا سب سے پہلا مدون و منظم بین قبائلی معاہدہ بھی کیا،جس سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت کے ضمن میں مدینہ کے سماج کو بہتر سے بہتر طور پر تشکیل دینے کا بھر پور موقع ملا اور کسی طرح کی رخنہ اندازی کا خدشہ بھی نہیں رہا۔ (سیرت ابن ہشام)
بنو قینقاع کے ایک فرد نے میثاق مدینہ کے ساتھ بد عہدی کرتے ہوئے ایک مسلم خاتون کی برسر راہ بے عزتی و بے حرمتی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی معاشرے کو اس طرح کی غیر سماجی وغیر اخلاقی حرکتوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر جرم مذکور اور میثاق مدینہ کی بدعہدی کی پاداش میں اس پورے قبیلے ہی کومدینے سے باہر نکال دیا، تاکہ مدنی معاشرہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مشتمل ایک مکمل انسانی سماج بن سکے اور اس میں کسی طرح کی حیوانیت در نہ آنے پائے۔ (سیرت ابن ہشام)
سنہ ۲ ہجری میںواقع غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، جس میں بڑے بڑے کفار مکہ مقتول ہوئے اور بہت سے قیدی بھی بنے۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان قیدیوں کے قیام و طعام کا بھر پور انتظام فرمایا، دودو، چار چار قیدی حسب حیثیت صحابہ کرام میں تقسیم کر دیے اور ارشاد فرمایاکہ ان کے آرام و آسائش کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ صحابہ کرام نے اپنے آقا کے ارشاد گرامی کو حرز جاں بنایااور قیدیوں کا اس قدر خیال رکھا کہ خود بھوکے اورپیا سے رہے مگر قیدیوں کو کھلایا اور پلایابھی۔ان قیدیوں میں ابو عزیز،جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی تھے،بیان کرتے ہیں کہ مجھے جن انصاریوں نے اپنے گھر میں رکھا تھا ،جب صبح و شام کا کھانا کھلاتے توروٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور اٹھا لیتے، مجھے شرم آتی اور روٹی مَیں ان کے ہاتھ میں دیدیتا،لیکن وہ اُسے ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کردیتے۔یہ اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کا حسن سلوک اور وہ بھی جنگی قیدیوں کے ساتھ۔دنیا کاکوئی متمدن معاشرہ اس قسم کے حسن سلوک کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ (تاریخ طبری)
تحویل قبلہ کے بعد جب مسجدنبوی کارخ کعبہ کی طرف ہوگیاتوقبلہ اول کی طرف کی دیوار اور اس سے متصل جو جگہ ایک چبوترے کے طورپر تھی ،اصحاب صفہ کے لیے چھوڑ دی گئی۔ جن کے کھانے پینے کا انتظام حضوراپنے گھر والوں کی طرح کرتے تھے۔سرکاردوعالم کو اپنی اسی سخاوت اورغریبوں کی مددکرنے کے باعث وقتاً فوقتاً بڑی دشواری ہوجاتی تھی اور فقروفاقہ تک کی نوبت آجاتی تھی،جس کو آپ برداشت کرتے تھے ۔(رہبرانسانیت)
قبیلۂ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی صاحبزادی’ جویریہ‘ باندی کی حیثیت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں، لیکن آپ نے ان کو آزاد فرمادیا،مزید احسان فرماتے ہوئے ان کو اپنے نکاح میں بھی لے لیا۔یہ واقعہ ۶ہجری کا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دلداری کا اثر یہ ہوا کہ بنومصطلق کے تمام لوگ اسلام لے آئے،اِدھر صحابہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ہمدردانہ رویہ دیکھ کر اپنے قبضے میں آئے ہوئے تمام غلام و باندی آزاد کردیے۔خدمت انسانی کا یہ عظیم ترین واقعہ ہے کہ ایک باندی کو آزادی کے ساتھ ساتھ دنیا کی افضل ترین خاتون ہونے کا شرف ملااور یوںہی سیکڑوں لوگوں کو غلامی سے مفت آزادی ملی۔ (ابن ہشام)
یہ تو تھیں صاف ستھرا،بااخلاق اور حیا دار مدنی سماج کو پیش کرنے والی چند تاریخی مثالیں ۔اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور اُن پر تدریجاََ نازل ہونے والی آیات قرآنی میں جہاں حقوق اللہ یعنی نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کی ادائیگی کا حکم آیاہے، تو اس کے ساتھ بندوں کے حقوق و فرائض کی بجاآوری کا بھی حکم دیا گیا ہے اور فقہائے اسلام کی تشریح کے مطابق حقوق العبادکی اہمیت حقوق اللہ سے زیادہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کا دوسرا نام ہی سماجی خدمت ہے،کیوںکہ سماجی خدمت کا مطلب ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کی جائے،انھیںان کے حقوق دیے جائیں،کسی کی حق تلفی نہ کی جائے،کسی یتیم کا مال نہ کھایا جائے،کسی بیوہ پر عرصہ ٔحیات تنگ نہ کیا جائے، بیماروں کی عیادت کی جائے،بڑوں اور بوڑھوں کی تعظیم کی جائے، چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیا جائے،ظالم کو ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کو انصاف دلایا جائے۔یہ تمام چیزیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتا ئے ہوئے حقوق العباد میں شامل ہیں
No comments:
Post a Comment