عروج ہی عروج ھے کمال ہی کمال ہیے خدائے ذولجلال ھی خدائے ذولجلال ھے
بشر بشر کے واسطے نظر نظر کے واسطے کبھی حسیں جواب ھے کبھی حسیں سوال ھے
لکھوں میں اسکا حال کیا دوں میں اسکی مثال کیا نہ وہ کسی کی سوچ ہے ۔ نہ وہ کوئ خیال ھے
نہ ابتدا نہ انتہا نہ قرب ھے نہ فاصلہ نہ اسکا روز و شب کوئ نہ اسکا ماہ و سال ھے
ہر اک مقام پر ملے جدھر کہو ادھر ملے جنوب میں جنوب ھے شمال میں شمال ھے
وہ ذات ھے قدیم بھی رؤف بھی رحیم بھی وہ ذات بے مثال تھی وہ ذات بے مثال ھے
عروج ہی عروج ھے کمال ہی کمال ہیے خدائے ذولجلال ھی خدائے ذولجلال ھے
تیرے کرم کی ہیں سوغاتیں .میری غزلیں میری باتیں۔ آو چپ کا روزہ توڑیں۔ خاموشی سے کر کے باتیں۔ اک اک پل کو گرہ لگا کر۔ کاٹی ہیں برہا کی راتیں۔ اُس کے آگے سب اک جیسے۔ کسکا جاہ اور کیسی ذاتیں۔ عشق نے ہیر کو رانجھا کر کے۔ منوا لیں سب اپنی باتیں۔ جھولی پھیلا کر مانگی ہیں۔ تیری جیتیں اپنی ماتیں۔ سانسوں کے جھولے میں جھولیں۔۔ ہونے نہ ہونے کی باتیں۔۔
سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو ..اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو .. لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو
اِس بار میں آیا ہوں چراغوں کو بجھا کر ..اِس بار مجھے اپنی نگاہوں کی ضیا دو
اپنا ہی نقش ڈھونڈنے نکلے تو یوں ہوا ..... ہم عکس بن کے آئنہ خانوں میں رہ گئے
دونوں عالم کا رہنما تو ہے۔ابتدا تو ہےانتہا تو ہے۔ چاند تاروں میں نور ہےتیرا۔
حدامکاں ظہور ہےتیرا۔ غنچۂ و گل میں ہےادا تیری۔ تیرگی میں بھی ہےضیا تیری۔
میں ہوں کمزوراورقوی تو ہے۔ میں ہوں محتاج اور غنی تو ہے۔
رزاق افسر (میسور)
تیری آرزو مری زندگی، مری بندگی تری جستجو
یہ ہے روز و شب مرا مشغلہ، مرے سلسلے یہی کو بکو
تری ذات منبع نور ہے، ترا نور کل کا ظہور ہے
تو مجیب اسود و طور ہے، تو نہاں کہیں کہیں روبرو
کوئی ایسا دیدہ و دل کہاں، تری ذات جس پہ نہ ہو عیاں
تو قدیم و خالق کن فکاں، تو محیط عالم رنگ و بو
تری راہ صبح کے رابطے، ترے فاصلے مرے رت جگے
یہ نیاز و ناز کے مرحلے، کہیں تشنہ لب کہیں آبجو
تری عظمتوں کے سرور سے ہوئی فکر میری نہال جب
تو ملا کمال سخن مجھے، بنی آئینہ مری گفتگو
ہو بیان کیا تری برتری، ترا نام جب بھی لیا کوئی
تو زبان خلق ہے کہہ اٹھی، تری شان جل جلالہٗ
کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا
دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا
اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا
جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا
خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا
No comments:
Post a Comment