سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

Monday, October 23, 2017

Tadrees-ul-islam institute: Salat-ul-Istikhara

Tadrees-ul-islam institute: Salat-ul-Istikhara: Salat-ul-Istikhara The Prophet Muhammad Sallallahu Alayhi Wa Sallam has said: "If one of you is concerned about some practical und...

Wednesday, June 24, 2015

                         اشعار


 تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے ۔                                                                                            میرا ہر سانس ترا شکر ادا کرتا

 ہے تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے ۔                                                        

                                  میری ہر صبح کا آغاز ہوا کرتا ہے

رحمتیں دیتی ہیں آواز گنہ گاروں کو ۔                                                                                                    یہ کرشمہ بھی ترا عفو کیا کرتا ہے 

رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو۔ 

                                     تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے 

زندگی پر کبھی اتراؤں نہ مرنے سے ڈروں 

                                         تو ہی پیدا بھی کرے تو ہی فنا کرتا ہے 

تیرے الطاف کسی کے لیے مخصوص نہیں۔      

                                          تو ہر اک چاہنے والے کی سنا کرتا ہے 

خیر مقدم کیا کرتی ہیں اسی کی راہیں ۔                                                                                              تیرے کہنے کے مطابق جو چلا کرتا ہے 

گیت گاتیں ہیں بہاریں تیری تخلیق کے۔           

                                        سینہِ سنگ سے جب پھول کھلا کرتا ہے 

بڑا نادان ہے تجھے دور سمجھنے والا۔                                                                                                  تو رگِ جان سے بھی نزدیک رہا کرتا ہے


   (مظفر وارثی)  


                                                                                                                                                                                                                                                                                                       حمد باری تعالٰی

(از: افتخار راغب)
وہی جو خالق جہاں کا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
جو روح جسموں میں ڈالتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
وہ جس کی حکمت کی سرفرازی، وہ جس کی قدرت کی کارسازی 
ہر ایک ذرّہ میں رونما ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
وہ بے حقیقت سا ایک دانہ، جو آب و گِل میں تھا مٹنے والا
جو اُس میں کونپل نکالتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
الگ الگ سب کے رنگ و خصلت، جدا جدا سب کے قدّو قامت
جو سارے چہرے تراشتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
ہے علم میں جس کے ذرّہ ذرّہ، گرفت میں جس کی ہے زمانہ
جو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
وہ جس نے دی مختلف زبانیں، تخیل و عقل کی اُڑانیں
جو کشتیء فن کا ناخدا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
کوئی تو ہے جو ہے سب سے اول، کوئی تو ہے جو ہے سب سے آخر
جو ابتدا ہے جو انتہا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
مصیبت و درد و رنج و غم میں، حیات کے سارے پیچ و خم میں 
تو جس کو راغب، پکارتا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے


تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر
یہ میری نظر کا قصور ہے
تیری راہ میں قدم قدم
کہیں عرش ہے کہیں طور ہے
یہ بجا ہے مالکِ دو جہاں
مری بندگی میں قصور ہے
یہ خطا ہے میری اے رب
مگر تیرا نام بھی تو غفور ہے
ہمیں فتح دے کافروں پر اے رب
ان کو اپنے اوپر بہت غرور ہے
یہ بتا تجھ سے ملوں کہاں
مجھے تجھ سے ملنا ضرور ہے
کہیں دل کی شرط نہ ڈالنا
ابھی دل گناہوں سے چور ہے
تو بخش دے میرےسب گناہ
تیری ذات بھی تو غفور ہے

جس پر ترا کرم ہے وہی باکمال ہے 
گرہو نہ تیرا فیض تو جینا محال ہے 
مالک ہے تو ہی توہی غفور و رحیم ہے 
یا رب تیرے ہی ہاتھ میں عروج و زوال ہے 
رازق ہے تو ہی سارے زمانے کا ائے خدا
جومانتا نہیں ہے وہ تنگ حال ہے 
جو تیری بندگی سے گریزاں ہے ائے خدا 
ڈوبا ہے درد میں وہی غم سے نڈھال ہے 
سورج میں مہتاب میں پھولوں میں ائے خدا
تیری تجلیوں سے ہی حسن و جمال ہے 
راہی کو مغفرت کی امیدیں تجھی سے ہیں 
یارب تیرے حضور میں ادنی سوال ہے 
----------
نظیر راہی

کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا۔                        باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا 
گوحکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں۔                       لیکن ٹلا نہ ہر گز دل سے خیال تیرا
 دل ہو کہ جان ، تجھ سے کیونکر عزیز رکھئے                     دل ہے سو چیز تیری جاں ہے سو مال تیرا
 بیگانگی میں حالی یہ رنگ آشنائی۔                                     سن سن کے سر دھنیں گے قال اہل حال تیرا
                                       مولانا الطاف حسین حالی

Thursday, February 19, 2015

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی۔۔۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی۔۔۔
عامر عباسی۔۔۔۔
مدنی زندگی کا سماج پوری دنیا کے انسانوں خاص طور سے مسلمانوں کے لیے تنہا اور آخری رول ماڈل ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست رحمت سے تشکیل یافتہ یہ اعلیٰ ترین سماج نہایت ہی پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا۔آج جب کہ دنیا عالم گیریت کی طرف بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور خاص طور سے یورپ کی آزاد خیال تہذیب و ثقافت کے سایے پوری دنیا پر دراز ہوتے جا رہے ہیںجس کے نتیجے میں آزاد خیالی کے نام پر ایسی ایسی انسانیت سوز و حیا دوزچیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ان کا تصور ہی ایک شریف انسان کے لیے کافی تکلیف دہ ہے۔ایسے میں مدنی سماج کے مطالعے کو عام کرنے کی ضرورت ہے، کیوںکہ نہایت ہی اعلی انسانی اقدار پر مشتمل یہ سماج رب العالمین کے رسول رحمۃ للعلمین کا تشکیل کردہ ہے۔چنانچہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور اخلاقی ناقدری کے پرانے مرض کاجڑسے خاتمہ کرنے کے لیے نہایت ہی کامیاب ترین سماج ہے اور عالم گیریت کے لیے پوری طرح سے مناسب بھی۔ یہاں اسی مدنی سماج خاص طور سے سرکار دوعالم کی اعلیٰ ترین مدنی سماجی سیرت کی ہلکی سی جھلک پیش کی جا تی ہے۔
مکہ میں۵۳؍سالہ زندگی گزارنے کے بعد رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔مدینہ پہنچنے پر آپ کا نہایت ہی پرتپاک استقبال ہوا، وہاں کے باشندوں نے آپ کو سرآنکھوںپربٹھایااور اس کے ساتھ ہر ایک خاندان کے سربراہ نے آپ سے اپنے یہاںاترنے اور قیام کرنے کی درخواست بھی کی۔ایسی نازک صورت حال میں آپ نے ازخود فیصلہ نہیں کیا،بلکہ اپنا فیصلہ اپنی اونٹنی پر چھوڑدیا کہ جہاں وہ بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہوگا۔اس فیصلے سے نہ کسی کا دل دکھا اور نہ ہی کسی کو یہ احساس ہوا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود میری دعوت کومُسترد کردیا۔بہر حال یہ شرف حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو حاصل ہواکہ انہی کے دروازے پر آپ کی اونٹنی بیٹھی اورآپ نے وہیں قیام کرنے کافیصلہ کیا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کا یہ پہلا مسئلہ تھا اورآپ نے اس اول مسئلے ہی کو بحکم الٰہی ایسی حکمت سے حل فرمایا کہ لوگوں کے دل ٹوٹنے سے بچ گئے جو اس بات کا اشاریہ تھا کہ ہم دلوں کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے آئے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام)
مدنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا اہم کام مسجد نبوی کی تعمیر ہے۔مسجد نبوی جس جگہ بنی ہوئی ہے ،یہ جگہ در اصل مدینہ کے دو یتیموں کی تھی۔جب ان دو یتیموں کو مسجد کی تعمیر کی اطلاع ہوئی تو ان دونوں نے یہ جگہ ہدیہ کے طور پر دینا چاہی،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی خواہش کے با وجود اُسے ہدیۃََلینا پسند نہیں کیا،بلکہ اس کی پوری قیمت عطا فرمائی۔ظاہر ہے ان یتیموں کی اگر یہ زمین ہدیہ ہوجاتی تو یہ بلا قیمت ہوتی اور ان کے لیے کسی نہ کسی طرح سے یہ ایک خسارہ ہوتا،کیونکہ ایک یتیم کے لیے جائیداد بہت بڑامالی سہارا ہوتی ہے۔چنانچہ رسول رحمت و رافت نے ان کی زمین مسجد نبوی کے لیے منظور فرماکر اُن کا دل رکھا اور قیمت دے کر ان کو مالی سہارافراہم کیا اورکسی طرح کا خسارہ نہ ہونے دیا۔یتیموں کی دلجوئی اور ان کے ساتھ رحمت ورافت کی یہ ایک بہت بڑی مثال ہے۔ (زاد المعاد)
مدنی زندگی میں رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اولاً قبیلہ اوس و خزرج اور پھر انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات بھی قائم کیا۔یہ رشتہ مواخات آپ کی بہت بڑی سماجی خدمت ہے کہ اس سے قبیلہ اوس و خزرج ،جو برسوں سے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بر سر پیکار رہتے تھے، ایک دوسرے کے ہم درد و غم خوار بن گئے۔دوسرا یہ کہ اسی رشتہ مواخات کی وجہ سے اوس و خزرج پر مشتمل انصار نے مہاجرین کی ،جو مکہ میں اپنا سارا ساز و سامان اور گھر بار چھوڑ آئے تھے اورمدینہ میں بالکل تہی دست تھے،بھرپور مدد کی اور ان کے ساتھ بھائیوں سا سلوک کیا جس سے ان تہی دست مہاجرین کو مدنی معاشرے میں ایک باحیثیت مقام و مرتبہ مل گیا۔اس معاہدے سے جہاں یہ فوری فائدہ حاصل ہو اکہ اس سے مسلمانوں کے مابین محبت و بھائی چارگی اور ہمدردی و غم خواری کی شاندار فضا قائم ہوگئی وہیں تہی دستوں،فاقہ کشوں، غریبوں، مظلوموں،مسافروں اور بے گھروں کو مدد بہم پہنچانے کے لیے مسلمانوں کی ذہنی و عملی تربیت بھی ہو گئی اور ایسی تربیت ہوئی کہ صحابہ کرام نے اپنی آخری حیات تک اس درس کو کبھی فراموش نہیں کیا۔تاریخ و سیر کی کتابیں حیات صحابہ کی اس عظیم حقیقت سے بھری پڑی ہیں اور اس حوالے سے ’’عہد فاروقی‘‘ تو ایک نمایاںمثال ہی ہے۔ (ابن سعد)
اوس و خزرج اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ مواخات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کے یہودی قبائل خاص طور سے بنو نضیر،بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے درمیان ’میثاق مدینہ‘ کے نام سے تاریخ انسانی کا سب سے پہلا مدون و منظم بین قبائلی معاہدہ بھی کیا،جس سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت کے ضمن میں مدینہ کے سماج کو بہتر سے بہتر طور پر تشکیل دینے کا بھر پور موقع ملا اور کسی طرح کی رخنہ اندازی کا خدشہ بھی نہیں رہا۔ (سیرت ابن ہشام)
بنو قینقاع کے ایک فرد نے میثاق مدینہ کے ساتھ بد عہدی کرتے ہوئے ایک مسلم خاتون کی برسر راہ بے عزتی و بے حرمتی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی معاشرے کو اس طرح کی غیر سماجی وغیر اخلاقی حرکتوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر جرم مذکور اور میثاق مدینہ کی بدعہدی کی پاداش میں اس پورے قبیلے ہی کومدینے سے باہر نکال دیا، تاکہ مدنی معاشرہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مشتمل ایک مکمل انسانی سماج بن سکے اور اس میں کسی طرح کی حیوانیت در نہ آنے پائے۔ (سیرت ابن ہشام)
سنہ ۲ ہجری میںواقع غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، جس میں بڑے بڑے کفار مکہ مقتول ہوئے اور بہت سے قیدی بھی بنے۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان قیدیوں کے قیام و طعام کا بھر پور انتظام فرمایا، دودو، چار چار قیدی حسب حیثیت صحابہ کرام میں تقسیم کر دیے اور ارشاد فرمایاکہ ان کے آرام و آسائش کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ صحابہ کرام نے اپنے آقا کے ارشاد گرامی کو حرز جاں بنایااور قیدیوں کا اس قدر خیال رکھا کہ خود بھوکے اورپیا سے رہے مگر قیدیوں کو کھلایا اور پلایابھی۔ان قیدیوں میں ابو عزیز،جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی تھے،بیان کرتے ہیں کہ مجھے جن انصاریوں نے اپنے گھر میں رکھا تھا ،جب صبح و شام کا کھانا کھلاتے توروٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور اٹھا لیتے، مجھے شرم آتی اور روٹی مَیں ان کے ہاتھ میں دیدیتا،لیکن وہ اُسے ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کردیتے۔یہ اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کا حسن سلوک اور وہ بھی جنگی قیدیوں کے ساتھ۔دنیا کاکوئی متمدن معاشرہ اس قسم کے حسن سلوک کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ (تاریخ طبری)
تحویل قبلہ کے بعد جب مسجدنبوی کارخ کعبہ کی طرف ہوگیاتوقبلہ اول کی طرف کی دیوار اور اس سے متصل جو جگہ ایک چبوترے کے طورپر تھی ،اصحاب صفہ کے لیے چھوڑ دی گئی۔ جن کے کھانے پینے کا انتظام حضوراپنے گھر والوں کی طرح کرتے تھے۔سرکاردوعالم کو اپنی اسی سخاوت اورغریبوں کی مددکرنے کے باعث وقتاً فوقتاً بڑی دشواری ہوجاتی تھی اور فقروفاقہ تک کی نوبت آجاتی تھی،جس کو آپ برداشت کرتے تھے ۔(رہبرانسانیت)
قبیلۂ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی صاحبزادی’ جویریہ‘ باندی کی حیثیت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں، لیکن آپ نے ان کو آزاد فرمادیا،مزید احسان فرماتے ہوئے ان کو اپنے نکاح میں بھی لے لیا۔یہ واقعہ ۶ہجری کا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دلداری کا اثر یہ ہوا کہ بنومصطلق کے تمام لوگ اسلام لے آئے،اِدھر صحابہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ہمدردانہ رویہ دیکھ کر اپنے قبضے میں آئے ہوئے تمام غلام و باندی آزاد کردیے۔خدمت انسانی کا یہ عظیم ترین واقعہ ہے کہ ایک باندی کو آزادی کے ساتھ ساتھ دنیا کی افضل ترین خاتون ہونے کا شرف ملااور یوںہی سیکڑوں لوگوں کو غلامی سے مفت آزادی ملی۔ (ابن ہشام)
یہ تو تھیں صاف ستھرا،بااخلاق اور حیا دار مدنی سماج کو پیش کرنے والی چند تاریخی مثالیں ۔اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور اُن پر تدریجاََ نازل ہونے والی آیات قرآنی میں جہاں حقوق اللہ یعنی نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کی ادائیگی کا حکم آیاہے، تو اس کے ساتھ بندوں کے حقوق و فرائض کی بجاآوری کا بھی حکم دیا گیا ہے اور فقہائے اسلام کی تشریح کے مطابق حقوق العبادکی اہمیت حقوق اللہ سے زیادہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کا دوسرا نام ہی سماجی خدمت ہے،کیوںکہ سماجی خدمت کا مطلب ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کی جائے،انھیںان کے حقوق دیے جائیں،کسی کی حق تلفی نہ کی جائے،کسی یتیم کا مال نہ کھایا جائے،کسی بیوہ پر عرصہ ٔحیات تنگ نہ کیا جائے، بیماروں کی عیادت کی جائے،بڑوں اور بوڑھوں کی تعظیم کی جائے، چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیا جائے،ظالم کو ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کو انصاف دلایا جائے۔یہ تمام چیزیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتا ئے ہوئے حقوق العباد میں شامل ہیں




Sunday, December 21, 2014



                            جمہوریت کی تعریف و تاریخ


جمہوریت کی تعریف:
جمہوریت کی لغوی معنی”لوگوں کی حکمرانی“ Rule of the peopleکے ہیں ۔ یہ اصطلاح دویونانی الفاظ Demoیعنی ”لوگ“اورKratosیعنی ”حکومت“ سے مل کربنا ہے ۔بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی ”اکثریت کی بات ماننا“ لیکن درحقیقت یہ ”اکثریت کی اطاعت “ کا نام ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکرہیروڈوٹس(Herodotus)کہتا ہے کہ:
”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں“
چنانچہ سابق امریکی صدر”ابراہم لنکن“کا یہ قول جو کہ جمہوریت کا نعرہ ہے ،اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے:
Goverment of the poeple by the people,for the people
”عوام کی حاکمیت،عوام کے ذریعے،عوام پر‘
تاریخ جمہوریت
جمہوریت کا سب سے پہلا سراغ ہندوستان میں ملتا ہے ۔6سوسال قبل ازمسیح اور ”بدھا“کی پیدائش سے قبل ھند میں جمہوری ریاستیں موجود تھی اور ا ن کوjanapadas(جاناپداس)کہا جاتاتھا۔ان میں سب سے پہلی ریاست”وشانی“ریاست تھی جو کہ آج ”بہار“کے نام سے مشہور ہے ۔ اسی طرح سکندراعظم کے دورمیں400قبل از مسیح یونانی دانشوروں کے مطابقsabaracaeاورsabastaiکی ریاستیں جو موجودہ پاکستان اور ہندوستان ہیں،یہاں پر بھی جمہوری حکومت تھی نہ کہ شاہی حکومت ۔اسی طرح 5صدی قبل از مسیح میںGreeceمیں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتا ہے۔Talius Cessarاورسینٹ سربراہponpeکے درمیان خانہ جنگی کے بعد 49Bپہلی دفعہ”رومن ایمپائر“وجود میں آئی ۔اس سلسلے میں چند مثالیں درجہ ذیل ہیں:
(۱)ہندوستان میں پنچائیت (۲)جرمن قبائلی نظام(Taciths)
(۳)فرینکش کسٹم آف مارچ(Frankish custom of march field
(۴)آل تھنگ آف پارلیمنٹ آئس آئرلینڈ
(۵)توتھاسسٹم آئرلینڈ(Tutha systim of irelsnd)
(۶)قریش کا دارالندوہ(قصی بن کلاب)

Monday, December 1, 2014


اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن




اسلام کا قانونِ جنگ جسے اصطلاح شرع میں ”جہادفی سبیل اللہ “ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، کچھ تو خود ہماری بداطواریوں، اوجھی ونامناسب حرکات وسکنات، اور ہوش سے زیادہ جوش وجذباتیت کے اظہار ،دوسری جانب اعداء اسلام کی سازشوں ،افواہوں اور غلط پروپیگنڈوں اور ان کی جانب سے اس کی غلط توضیح وتشریح، اس کے حقیقی مفہوم کو پردہٴ خفامیں رکھنے کی وجہ سے، معاشرہ کی اصلاح، امنِ عامہ کے قیام اور سماج سے ظلم وسفاکیت اور فسادوبگاڑ کے دور کرنے میں اس کا حقیقی اور بامعنی کردار نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔
          ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈے کے اس دور میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف ذرائع تشہیر کے ذریعے اسلامی احکام وتعلیمات کے روشن اور تابناک پہلووٴں کا اظہار کرتا رہے، تاکہ رفتار زمانہ اور خود مسلمانوں کی غفلت اور نادانی کے نتیجے میں ، اسلامی تعلیمات کی خوبیوں پر گردوغبار کی جو دبیز تہہ جم چکی ہے اس کی صفائی ہو، اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی روشن وتابناک چہرہ لوگوں کے سامنے آئے، جس کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ اغیار واجانب کی غلط فہمیوں پر مبنی نظریات وتصورات کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی راہیں کھلیں گی، یہ تحریر اسی تناظر میں ضبطِ تحریر میں لائی جارہی ہے کہ اسلامی قانونِ جنگ کے مختلف محاسن سامنے آئیں، اور غلط وباطل نظریات ومفروضات کا ازالہ ہو، اگرچہ مذہب اسلام سراپا خیر ورحمت ہے؛ لیکن مطلب پرستوں ،نفسانیت کے پجاریوں اور عدل وانصاف کے قاتلوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ حذف واضافہ اور ردوبدل کے ذریعے کسی بھی عبادت کے حقیقی مفہوم کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرکے اس سے اپنا معنی ومطلوب کشید کرلیں، جس میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔
          چونکہ اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی چودھراہٹ اور سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
جنگ علی الاطلاق ممنوع نہیں
          اللہ عزوجل نے انسان کو مجموعہٴ اضداد بنایا ہے ، خیر وشر دونوں پہلو انسانی طبیعت میں ودیعت کیے ہیں ، انسان میں خیر کا پہلواسے نیکی اور بھلائی پر ابھارتا ہے ، جب کہ شر کا پہلو اسے آمادہٴ معصیت اور ظلم وستم کرتا ہے؛ اس لیے روزِ اول ہی سے اللہ عزوجل کا یہ قانون رہا ہے کہ وہ مختلف قوموں کو آمادہٴ پیکار کیے رہتے ہیں؛ تاکہ اس طرح نیکی اور بھلائی کا پلڑا بھاری ہوجائے ، سچائی وصداقت کی حقانیت آشکارا اور برائی کی قباحت وشناعت بھی عیاں ہوجائے ۔
          چنانچہ دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراوٴ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا : ”جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تونصارےٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے بے شک اللہ تعالی اس کی مدد کرے گا جو (اللہ کے دین)کی مدد کرے گا ،بے شک اللہ تعالی قوت والا ،غلبہ والا ہے وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے“۔ مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں ؛ بلکہ اس جنگ کی اجازت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم رکھیں ، بد امنی اور انارکی کا خاتمہ کریں ، پارسیوں ، عیسائیوں ، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو ہر طرح کے نقصانات اور گزند سے مامون ومحفوظ رکھیں۔مطلب یہ ہے کہ یہ قتال اور جہاد کا حکم کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کو بھی قتال کفار کے احکام دیے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں مسمار کردی جاتیں۔
اسلام میں جہاد کا حقیقی مفہوم
          جہاد سے متعلق سب سے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ اس لفظ کو ”جنگ “ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اسے عربی لفظ ”حرب “ کے مرادف باور کیا جاتا ہے جو تباہی وبربادی کے معنی میں آتا ہے (المعجم الوسیط : ۱۴۶) یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کہیں بھی اپنے اسلامی نظریہٴ جنگ کے لیے لفظ ”حرب “ کا استعمال نہیں کیا ہے ، قابلِ التفات امر یہ ہے کہ جس ملت ومذہب ہی کے نام میں امن وعافیت کا مفہوم شامل ہو وہ کیوں کر بے جا کُشت وخون اور فساد وبگاڑ کی دعوت دے سکتا ہے ؛ بلکہ؛ دین دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ اس قسم کی ظلم وفسادپر مشتمل جنگوں کا خاتمہ کرے اور امن وامان اور عدل و مساوات پر قائم ایک ایسا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے کہ دورانِ جنگ بھی کسی کی حق تلفی یا اس پر ظلم وستم جائز نہ ہو ۔چنانچہ مذکورہ بالا لغت میں لفظ”جہاد “ کی تشریح یوں کی گئی ہے ”قتال من لیس لھم ذمة من الکفار“ غیر ذمیوں سے قتال (المعجم الوسیط)
اسلامی جنگ کا مقصود فتنہ وفساد کا خاتمہ
           اسلام میں جنگ ایک نہایت شریف عمل ہے ؛ لہٰذا ہمیں اس کے متعلق کسی طرح کے بھید بھاوٴ یا معذرت خواہانہ رویہ کے اختیار کرنے کر نے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے، اس کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ، اس کی تعلیمات دیگر مذاہب کی طرح محض چند رسوم وعقائد کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کا خود ساختہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا قانون ودستور ہے ؛ بلکہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ نظامِ حیات ہے، جس میں ہر شعبہٴ زندگی کے متعلق انسانیت کے لیے رہنمایا نہ اصول بتلائے گئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہر شخص اپنا سکتا ہے، کوئی بھی شخص ان اصول کو اپنا کر اس کے دامنِ رحمت وعافیت میں جگہ پاسکتا ہے ”اسلامی نظامِ جنگ “ ”جہاد“ یا اس جیسی نقل وحرکت کا مقصود بھی یہی ہے کہ فطرتِ انسانی سے موزون اعتدال پر مبنی ان تعلیمات کا ہرسمت بول بالا ہو ، روئے زمین سے ناانصافی ، بد امنی ، ظلم وجبر اور شروفساد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اس خدائی نظام کے تحت امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے ، اشاعتِ اسلام کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ لوگوں کومجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے ، ارشاد خداوندی ہے ”لّا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ“دین میں زور زبردستی نہیں، اگر کوئی شخص جزیہ کی مشروعیت پر غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اسلامی جنگ کا مقصود اسلام کا غلبہ ہے خواہ وہ مخالف کے اسلام لانے سے ہو یا رعیت بن کر رہنا منظور کرنے سے ؛ چوں کہ جزیہ دے کر اسلامی سلطنت میں رہنا بھی در اصل اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے ، جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تو فتنہ وفساد کے امکانات بھی ختم ہوچکے ؛ لہٰذا اب جنگ بھی موقوف کردی جائے گی ، اب اس ذمی شخص کو اسلامی سلطنت میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں ، اسی کوآیت کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فسادنہ رہے اور دین (غلبہ)اللہ ہی کا ہوجاوے ۔ اور اگر وہ لوگ (فساد سے)بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہواکرتی بجز بے انصافی کرنے والوں کے“(البقرة :۱۹۳) اس آیتِ کریمہ میں جنگ بندی کی انتہا فتنہ وفساد کا خاتمہ بتایا گیا ہے ۔
          دورِ رسالت کی غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد۸۲ ہے، اگران لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کیا جائے تو بھی ان میں مقتولین کی مجموعی تعداد (۱۰۱۸) ہے اور (۸۲) پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ 12.414اوسط نکلتا ہے ، قیدیوں کی مجموعی تعداد (۶۵۶۴) ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور چوں کہ ان کی تعدادکے اندر بڑی تعداد (۶۰۰۰) ایک ہی غزوہ حنین کی ہے (جوکہ بعد میں تمام آزاد کردیے گئے ) اس لیے باقی جنگوں میں اسیرانِ جنگ کا اوسط (۷) رہتا ہے ۔اس کے بالمقابل زمانہٴ گزشتہ کی دو عظیم جنگیں اور ان کی ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا اندازہ لگائے جو صرف چھوٹی سلطنوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں، مقتولین ، مجروحین کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے متجاوز ہے ، اہلِ دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں لو ، مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں،یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس ہلاک کیے ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے (تمام اعداد شمار کے لیے ملاحظہ ہو : رحمة للعالمین : ۲/۴۶۴)
          جزیہ کی ادائیگی کوبھی جو کہ در اصل اسلامی تعلیمات کی بالادستی اور روئے زمین پر فتنہ وفساد مچانے سے رکنے کا اعتراف اور عہد ہوتا ہے اس کو بھی جنگ بندی کی انتہا بتلایاگیا ہے ۔اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :”اہلِ کتاب جوکہ نہ خدا پر (پورا پورا)ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام)کو قبول کرتے ہیں، ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہوکر اور رعیت بنکر جزیہ دینا منظور کریں “(التوبة : ۲۹)جزیہ کہتے ہیں اس مال کو جو اسلامی سلطنت کے ما تحت رہنے والے غیر مسلموں سے ان کی جان مال ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے اور بالکل معمولی رقم ہوتی ہے ، جزیہ کی یہ رقم ادا کرنے والے یہ لوگ ذمی کہلاتے ہیں اور ان کے اسلامی سلطنت کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ان کے جان ومال ، عزت وآبرو کی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے ، ان کے مذہبی امور میں مداخلت کو اسلام منع کرتا ہے ، پھر اس میں بچے ، بوڑھے ، عورتیں اور معذورین سے جزیہ نہیں لیا جاتا ، اسی طرح مکاتب ، مدبر ، ام الولد پر بھی جزیہ نہیں ہوتا ، مذہبی پیشواجو گوشہ نشیں ہوں ان سے بھی جزیہ نہیں لیا جا تا۔(اصح السیر: ۴۷۴)
دورانِ جنگ بے قصور لوگوں سے تعرض کی ممانعت
          اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے ، عملاً جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد بہم پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے ، بقیہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا ، دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو رہنے دیجیے ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے ، ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا : کمزوربوڑھوں ، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے (ابوداوٴد:باب دعوة المشرکین إلی الإسلام : حدیث:۸۴۹)اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو جو ملکِ شام ایک مہم کے لیے روانہ ہوا تھا،انھیں اس قسم کی ہدایات دی تھیں کہ وہ بچوں کو قتل نہ کریں ، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی ضعیف بوڑھے کو نہ ماریں ، کوئی پھلدار درخت نہ کاٹیں، کسی باغ کو نہ جلائیں ( موٴطامالک : ۱۶۸)
          یہ بات پیشِ نظر رہے کہ عہدِ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کہیں بھی کسی آبادی کو نرغے میں لیاہے وہاں کی ساری آبادی اور قبیلے کے سارے لوگ بنفس نفیس اور عملاً جنگ میں شریک تھے ؛ البتہ عہدِ صحابہ میں عموماً مسلمانوں کا مقابلہ وہاں کی آبادی سے نہیں ؛ بلکہ حکومت کے منظم فوجیوں سے ہوا ہے ؛ اس لیے مجاہدین نے اس ملک میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد وہاں کی عوامی املاک یا وہاں کے باشندوں کے مال وجان پر کسی طرح کی دست درازی نہیں کی ہے ؛ بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور رواداری اور انصاف پر مبنی طرزِ عمل کو دیکھ کر کئی موقعوں پر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور پارسیوں کے خلاف ہی جاسوسی ، خبر رسانی اور رسد بہم پہنچانے اور اس قسم کی مختلف طرح سے امداد کی ہے، یہی وجہ تھی کہ جنگِ یرموک پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا: ”جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے“ ، عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا : ” خدا کی قسم ! تم رومیوں کے بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو “ (الفاروق : ۲/ ۱۲۰)غور طلب امر یہ ہے کہ اگر اسلامی جنگ کا مقصود کشیدگی اور بد امنی اور انارکی کا ازالہ اور وہاں عدل وانصاف پر مبنی طرزِ حکومت کا قیام نہ ہوتا تو وہاں کے مقامی باشندے اپنے ہم مذہب پیشواوٴں کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ کیوں دیتے ؟ اور ان کے ساتھ اس جذباتی محبت وعقیدت کا اظہار کیوں کرتے ؟
معاہدے کی پاسداری کی تاکید
          اسلام نے حالتِ جنگ میں جن چیزوں کی سخت تاکید ہے ، ان میں سے ایک عہد کی پاسداری بھی ہے؛ بلکہ عام حالات میں بھی وفائے عہد کو ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کا لازمہ اور خاصہ قرار دیا گیا ہے ، ایک ایمان والے کے شایانِ شان نہیں کہ وہ وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرے ، بدعہدی یہ تو منافق کا شیوہ ہوتا ہے (ریاض الصالحین : ۲۹۳)عہد وپیمان کے پاس ولحاظ کی تاکید کر تے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا : ”معاہدے کی پاسداری کرو؛کیوں کہ اس کے تعلق سے بازپرس ہوگی “ عام حالات میں پابندیِ عہد کا اس قدر سختی کے ساتھ اسلام مطالبہ کرتا ہے ،ظاہر ہے کہ جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت مزید دوچند ہوجاتی ہے؛ اس لیے خصوصاً دورانِ جنگ یہ تاکید کی گئی ہے کہ دشمن خواہ بدعہدی کیوں نہ کرے ،مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ اجازت نہیں کہ قبل از اطلاع ان کی جانب پیش قدمی کریں یا بغیر انقطاع عہد کی اطلاع کے ان پر چڑھ دوڑیں؛ بلکہ ان کی جانب سے عہد شکنی کے باوجود بھی مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قراردیا گیا ہے کہ وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کردیں ، پھر اس کے بعد ہی وہ جنگی کارروائی کر سکتے ہیں، ارشاد خداوندی ہے : ”اور اگر تجھ کو ڈر ہو کسی قسم سے دغا کا تو پھینک دے ان کا عہد ان کی طرف ایسی طرح پر کہ ہو جا تم اور وہ برابر، بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔“ (الانفال :۵۸)اس آیت کریمہ میں قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں؛ لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کر دینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں؛ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کر دیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے، یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں؛ اس لیے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو!۔
          اس سلسلہ کا ایک دلچسپ اور مشہور واقعہ جس کا ذکر مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی نے کیا ہے: حضرت معاویہ کا ایک قوم کے ساتھ ایک میعاد کے لیے التوائے جنگ کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ اس قوم کے قریب پہنچا دیں؛ تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں؛ مگر عین اس وقت جب حضرت معاویہ ص کا لشکر اس طرف روانہ ہو رہا تھا یہ دیکھا گیا کہ ایک معمر آدمی گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہاہے: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وفاءً لا غدرًا ۔ یعنی نعرہ تکبیر کے ساتھ یہ کہا کہ ہم کو معاہدہ پورا کرنا چاہیے اس کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترکِ جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہیے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔ حضرت معاویہ کو اس کی خبر کی گئی ۔ دیکھا تو یہ کہنے والے بزرگ حضرت عمرو بن عنبسہ صحابی تھے ۔ حضرت معاویہ نے فوراً اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تاکہ التوائے جنگ کی میعاد میں لشکر کشی پر اقدام کرکے خیانت میں داخل نہ ہو جائیں (معارف القرآن : ۴/۲۷۰)۔
اسیرانِ جنگ کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ
          دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں گزری ہیں، وہ اسیرانِ جنگ کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ اور بہیمانہ سلوک کرتے تھے ، موجودہ یورپین حملہ آور اقوام کا جنگی قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ان کے اسیرانِ جنگ کے ساتھ سلوک کے حوالے سے شاہدِ عدل ہیں ، گوانتاموبے اور ابوغریب کی بدنامِ زمانہ جیل اور وہاں کی انسانیت سوز اور حیا باختہ انواعِ تعذیب وعقوبت کو دیکھ کر ہر شخص تلملا اٹھا، اس کے ساتھ اسلام کا اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسنِ سلوک بھی مشاہد ہ کرتے چلئے :
           جنگ بدر کے بہتر ( ۷۲) قیدیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر ( ۷۰) قیدیوں کو جرمانہ لے کر آزاد فرمادیا تھا، ان قیدیوں کو دورانِ اسارت مہمانوں کی طرح رکھا گیا ، اہلِ مدینہ نے ان کے ساتھ نہایت ہی اچھا برتاوٴ کیا ، اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کی خاطر مدارت کی․․․․․ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے قیدیوں کی بندس کے تنگ ہونے کی وجہ سے کراہنے کی آوازیں سنائی دی، آنحضرت اکو ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ساری رات نیند نہ آئی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے حکم سے تمام قیدیوں کی بندش ڈھیلی کی گئی، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت ہوئی ، بدر کے تما م قیدیوں میں سے صرف دو شخص ( عقبہ بن مُعَیط اور نضر بن حارث ان کے بھیانک جرائم کی وجہ سے) قتل کر دیے گئے۔ جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی مصطلق میں بھی (۱۰۰) سے زیادہ مرد وزن قید ہوئے، آپ نے ان سب کو بلاکسی شرط اور جرمانہ کے آزاد کردیا۔جنگ حنین کے موقع سے بھی چھ ہزار مردوزن قیدیوں کو بلا کسی شرط ومعاوضہ کے آزاد فرمادیا ؛ بلکہ بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اسیر کنندگان کو خود ادا کیا ، پھر اکثر اسیروں کو خلعت اور انعام سے نواز کر رخصت کیا ۔ان جملہ نظائر سے اسلام کے حملہ آور دشمنوں اور قابویافتہ قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحم وکرم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
          آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں جب کہ عراق ، مصر ، شام ، ایران اور خراسان، جیسے بڑے اور متمدن علاقے فتح ہوئے ؛ لیکن کسی بھی جگہ حملہ آور یا جنگ آزما رعایا میں سے کسی کو لونڈی ، غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا ؛ بلکہ مغلوب دشمن سے تاوانِ جنگ لینے کا ذکر بھی درج نہیں ہے (رحمة للعالمین : ۱/۲۱۲)
          مذکور ہ بالا تحریر کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن ہے ، سسکتی ، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو اگر کوئی جائے پناہ اور موقع نجات مل سکتا ہے تو اسلامی تعلیمات کے زیرِ اثر ، ورنہ یہ خوف او راندیشوں کے سائے انسانیت کا یوں ہی پیچھا کرتے رہیں گے ۔
***

Tuesday, October 7, 2014





المیہ یہ ھوتا جا رھا ھے کہ جدید اعتدال پسندی کا وائرس آجکل زوروشور سے اپنا کام دکھا رھا ھے ھر کسی کا ایک ھی راگ ھے اور اسی میں دھن سارے معتدل مزاج روز بروز دوسروں کے ساتھ اپنی نام نھاد معتدل مزاجی چمٹانا چاھتے ھیں اور وہ معتدل مزاجی یہ ھے کہ جناب کسی کافر کو کافر نہ کہو ، کسی گمراہ کو گمراہ نہ کہو ، سب کی چلنے دو ، رائے کا احترام کرو ، اپنی بات کرو اور عوام پر چھوڑ دو وہ چاھے جو فیصلہ کریں ۔۔۔
آج کے دور کے عوام کالانعام نھیں رھے بلکہ کالاعلام ھوتے جا رھے ھیں کہ ان کو فقھا محدثین کے ساتھ اختلاف میں حکم بنایا جا رھا ھے ۔۔۔۔
علم والوں سے کہو اپنے نشیمن میں رھیں
اس دور کا ھر شخص فقھا کی طرح ھے




Monday, August 11, 2014


اک نام ِ محمد ﷺ ہے، کروڑوں ہیں فدائی
درویش اسی در کی فقیری میں ہے شاہی
ان کا نہ ہوا جو ، نہ ہوئے اس کے دو عالم
جو ان کا ہوا، اس کا خدا، اس کی خدائی
(فاروق درویش)

Sunday, June 22, 2014

                                             TAQT AEK HONY  MEN HI 
HY 

Saturday, June 21, 2014

                                               Alfaz k moti